لیکوریا، جسے عام زبان میں “سفید پانی” یا “لیکوریا” کہا جاتا ہے، خواتین میں پائے جانے والی ایک عام حالت ہے جس میں اندام نہانی سے سفید، پیلے یا ہلکے سبز رنگ کا مادہ خارج ہوتا ہے۔ یہ خارج ہونے والا مادہ عام طور پر ہلکی سی نمی کے لئے ہوتا ہے، لیکن اگر یہ زیادہ مقدار میں ہو یا اس کے ساتھ بدبو، جلن، یا درد ہو تو یہ کسی انفیکشن یا صحت کے مسئلے کی علامت ہو سکتا ہے۔
لیکوریا کی وجوہات:
- انفیکشن: بیکٹیریا، فنگس، یا وائرس کی وجہ سے انفیکشن ہو سکتا ہے جس سے لیکوریا کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
- ہارمونز میں عدم توازن: ماہواری کے دوران ہارمونز کی کمی بیشی بھی لیکوریا کا باعث بن سکتی ہے۔
- غذائیت کی کمی: وٹامنز اور منرلز کی کمی، خاص طور پر آئرن کی کمی، بھی لیکوریا کو بڑھا سکتی ہے۔
- ذہنی دباؤ اور جسمانی کمزوری: جسمانی کمزوری، طویل بیماری، یا ذہنی دباؤ کی وجہ سے بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔
- صفائی کی کمی: اندام نہانی کی صفائی میں کمی، یا مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے انفیکشن اور لیکوریا ہو سکتا ہے۔
ہومیوپیتھک علاج:
ہومیوپیتھی میں لیکوریا کا علاج اس کی علامات اور وجوہات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ یہاں چند اہم ہومیوپیتھک دوائیں درج ہیں جو مختلف حالات میں مفید ثابت ہوتی ہیں:
- Calcarea Carbonica: یہ دوا ان خواتین کے لئے مفید ہے جن کا لیکوریا گاڑھا، سفید اور دودھ جیسا ہو، خاص طور پر جب جسمانی کمزوری اور تھکاوٹ محسوس ہو۔
- Sepia: جب لیکوریا پیلے رنگ کا ہو اور بدبو دار ہو، اور اس کے ساتھ کمر میں درد یا اندام نہانی میں بھاری پن محسوس ہو تو یہ دوا موثر ہوتی ہے۔ یہ دوا ان خواتین کے لئے بھی مفید ہے جنہیں لیکوریا کے ساتھ ذہنی پریشانی اور چڑچڑاپن ہوتا ہے۔
- Pulsatilla: یہ دوا اس وقت دی جاتی ہے جب لیکوریا گاڑھا، پیلے یا سبز رنگ کا ہو اور ساتھ میں خارش اور جلن ہو۔ یہ خاص طور پر ان خواتین کے لئے مفید ہے جنہیں سردی اور ہوا میں رہنا پسند نہیں ہوتا۔
- Borax: اگر لیکوریا زیادہ گاڑھا اور چپچپا ہو اور اس کے ساتھ جلن اور خارش محسوس ہو تو یہ دوا دی جاتی ہے۔ خاص طور پر جب دورانِ ماہواری یا اس کے قریب یہ مسئلہ زیادہ ہوتا ہو۔
- Kreosotum: جب لیکوریا بہت بدبو دار ہو اور اندام نہانی میں جلن ہو، اور یہ زیادہ تر چلتے وقت محسوس ہو تو یہ دوا مفید ثابت ہوتی ہے۔
لیکوریا کے لئے ہومیوپیتھک علاج کا انتخاب مریض کی حالت اور علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ کسی بھی دوا کو شروع کرنے سے پہلے ماہر ہومیوپیتھ سے مشورہ کرنا ضروری ہے تاکہ مناسب علاج فراہم کیا جا سکے۔